کسی سے پوچھیں کون بتائے کس نے محشر دیکھا ہے
چپ چپ ہے آئینہ جس نے سارا منظر دیکھا ہے
منزل منزل چل کر جب بھی آئی لہو میں ڈوبی رات
آہٹ آہٹ قتل ہوا ہے قدموں میں سر دیکھا ہے
تو ہی بتا رخسار پہ اس کے کتنے تل ہیں کتنے داغ
تو نے تو اے دیدۂ بینا پھول کو پتھر دیکھا ہے
محفل محفل جس کے چرچے گلشن گلشن جے جے کار
ہم نے اسی کے ہاتھ میں یارو اکثر خنجر دیکھا ہے
لرزاں ترساں برسر مژگاں خون کے آنسو ہیں طارقؔ
شمع فروزاں شہر میں لے کر خونی منظر دیکھا ہے

غزل
کسی سے پوچھیں کون بتائے کس نے محشر دیکھا ہے
شمیم طارق