کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
میں بجھ رہی ہوں روا داریاں نبھاتے ہوئے
کسی کو میرے دکھوں کی خبر بھی کیسے ہو
کہ میں ہر ایک سے ملتی ہوں مسکراتے ہوئے
عجیب خوف ہے اندر کی خامشی کا مجھے
کہ راستوں سے گزرتی ہوں گنگناتے ہوئے
کہاں تک اور میں سمٹوں کہ عمر بیت گئی
دل و نظر کے تقاضوں سے منہ چھپاتے ہوئے
نہیں ملال کہ میں رائیگاں ہوئی ہوں نورؔ
بدن کی خاک سے دیوار و در بناتے ہوئے

غزل
کسی سے ہاتھ کسی سے نظر ملاتے ہوئے
شہناز نور