EN हिंदी
کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی | شیح شیری
kisi se aur to kya guftugu karen dil ki

غزل

کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی

امید فاضلی

;

کسی سے اور تو کیا گفتگو کریں دل کی
کہ رات سن نہ سکے ہم بھی دھڑکنیں دل کی

مگر یہ بات خرد کی سمجھ میں آ نہ سکی
وصال و ہجر سے آگے ہیں منزلیں دل کی

جلو میں خواب نما رت جگے سجائے ہوئے
کہاں کہاں لیے پھرتی ہیں وحشتیں دل کی

نگاہ ملتے ہی رنگ حیا کی صورت ہیں
چھلک اٹھیں ترے رخ سے لطافتیں دل کی

نگاہ کم بھی اسے سنگ سے زیادہ ہے
کہ آئنہ سے سوا ہیں نزاکتیں دل کی

دیار‌ حرف و نوا میں کوئی تو ایسا ہو
کبھی کسی سے تو ہم بات کر سکیں دل کی

سر جریدۂ ہستی ہمارے بعد امیدؔ
لہو سے کون لکھے گا عبارتیں دل کی