کسی رت میں جب مسکراتا ہے تو
نمو پتھروں میں جگاتا ہے تو
ترا شعلۂ نطق روح رواں
افق تا افق پھیل جاتا ہے تو
کبھی کھولتا ہے سمندر کے راز
کبھی ایک قطرہ چھپاتا ہے تو
کبھی غرق کر دے سفینے ہزار
کبھی ایک کشتی تراتا ہے تو
کبھی پھونک دے وادئ گل تمام
کبھی آگ میں گل کھلاتا ہے تو
کبھی شرح لا تقنطو کے لئے
سرابوں میں دریا بہاتا ہے تو
گوارا نہیں تجھ کو ویرانیاں
خرابوں کو پھر سے بساتا ہے تو
سیہ سخت موجوں کے آسیب میں
جزیرے دھنک رنگ اگاتا ہے تو
ترے اذن سے اندھی آنکھوں میں نور
کبھی خاک میں رم جگاتا ہے تو
کرن بھیج کر ایک ظلمات کی
شہنشاہوں کو زلزلاتا ہے تو
اجالوں میں ہیں تیری رنگینیاں
اندھیروں میں شمعیں جلاتا ہے تو

غزل
کسی رت میں جب مسکراتا ہے تو
سلیم شہزاد