کسی قلم سے کسی کی زباں سے چلتا ہوں
میں تیر کس کا ہوں کس کی کماں سے چلتا ہوں
میں تھک گیا ہوں ٹھہر کر کسی سمندر سا
با رنگ ابر ترے آستاں سے چلتا ہوں
تو چھوڑ دے گا ادھورا مجھے کہانی میں
اسی لیے میں تری داستاں سے چلتا ہوں
جو میرے سینہ کے بائیں طرف دھڑکتا ہے
اسی کے نقش قدم پر وہاں سے چلتا ہوں
اگرچہ چاہو تو لوگوں کو بیچ لے آنا
میں آج اپنے ترے درمیاں سے چلتا ہوں

غزل
کسی قلم سے کسی کی زباں سے چلتا ہوں
دھیریندر سنگھ فیاض