کسی پہ بار دگر بھی نگاہ کر نہ سکے
کوئی بھی شوق بحد گناہ کر نہ سکے
اجڈ پنے میں طلب کر گئے جواز خطا
خضر کے ساتھ بھی ہم تو نباہ کر نہ سکے
دیار ہجر بسایا ہے جو کہ برسوں میں
دم وصال کی خاطر تباہ کر نہ سکے
اماں طلب نہ ہوئے دشت بے پناہ میں ہم
سواد جاں بھی مگر حرف راہ کر نہ سکے
سفر مآب یہی بحر و بر ہے پھر بھی ہم
پروں کو اپنے کشا خواہ مخواہ کر نہ سکے
غزل
کسی پہ بار دگر بھی نگاہ کر نہ سکے
علی اکبر عباس