کسی پرندے کی واپسی کا سفر مری خاک میں ملے گا
میں چپ رہوں گا شجر کی صورت شجر مری خاک میں ملے گا
اداس آنکھیں سلگتے چہروں کی مجھ کو آواز دے رہی ہیں
کبھی جو آباد رہ چکا ہے وہ گھر مری خاک میں ملے گا
لہو کی بارش میں زرد پھولوں کی پتیوں سے لکھا گیا ہوں
میں لفظ کا ذائقہ زباں پر اثر مری خاک میں ملے گا
دیار شب کے بھٹکتے راہی شکار تشکیک و کم نگاہی
الاؤ روشن کہیں جو کر دے شرر مری خاک میں ملے گا
ازل سے سورج ابد میں تلاش جس کو کرتا ہوا گیا ہے
صدف زمیں ہے تو زندگی کا گہر مری خاک میں ملے گا
وہ بستیاں جو تباہیوں میں نمو کی تصویر بن گئی ہیں
وجود جن کا کہیں نہیں ہے مگر مری خاک میں ملے گا
میں چشم پر نم کی مشعلوں سے چراغ فردا جلا رہا ہوں
کہ نقش عرفان و آگہی بھی ظفرؔ مری خاک میں ملے گا
غزل
کسی پرندے کی واپسی کا سفر مری خاک میں ملے گا
احمد ظفر