کسی نے پوچھا جو عمر رواں کے بارے میں
تو کیا بتائیں گے سود و زیاں کے بارے میں
حریم دیدہ وری! خاک اڑ رہی ہے مری
میں جانتی تھی غبار مکاں کے بارے میں
نہ جانے کیسی گزرتی ہے جانے والوں پر
کوئی بتاتا نہیں رفتگاں کے بارے میں
دعا کرو کہ سلامت رہے مرا پندار
زمیں پہ سوچتی ہوں آسماں کے بارے میں
نہ جانے کتنے حریفوں کے نام یاد آئے
میں لکھ رہی تھی صف دوستاں کے بارے میں
ہر ایک قصے پہ دل اپنا تھام تھام لیا
جو واقعات سنے داستاں کے بارے میں
یقین کر کہ ابھی تک ہے دل کو تجھ پہ یقیں
یہ حسن ظن ہے کسی بد گماں کے بارے میں
فریب سادہ دلی دیکھ اس ستم گر نے
بیان راز کیا راز داں کے بارے میں
غزل
کسی نے پوچھا جو عمر رواں کے بارے میں
تسنیم عابدی