کسی نے با وفا سمجھا کسی نے بے وفا سمجھا
مجھے غیروں نے کیا سمجھا مجھے اپنوں نے کیا سمجھا
غم پیہم ہوئی ثابت جسے میں نے بقا سمجھا
حیات جاوداں نکلی جسے میں نے قضا سمجھا
غلط سمجھا زمانے میں تجھے درد آشنا سمجھا
مری نظروں کا دھوکا تھا میں پتھر کو خدا سمجھا
وفا کی راہ میں کھائے ہیں ایسے بھی کبھی دھوکے
وہ ظالم ابتدا نکلی جسے میں انتہا سمجھا
اسے دل کا جنوں کہئے کہ میری سادگی کہئے
میں ہر اک رہ گزر کو آج اس کا نقش پا سمجھا
بہت ممکن تھا موجوں سے مری کشتی نکل آتی
مگر وہ راہزن نکلا جسے میں ناخدا سمجھا
رہ الفت میں ایسے بھی کنولؔ اکثر مقام آئے
جہاں ہر دل کی دھڑکن کو میں اپنی ہی صدا سمجھا
غزل
کسی نے با وفا سمجھا کسی نے بے وفا سمجھا
ڈی ۔ راج کنول