EN हिंदी
کسی نظر نے مجھے جام پر لگایا ہوا ہے | شیح شیری
kisi nazar ne mujhe jam par lagaya hua hai

غزل

کسی نظر نے مجھے جام پر لگایا ہوا ہے

آفتاب حسین

;

کسی نظر نے مجھے جام پر لگایا ہوا ہے
سو کرتا رہتا ہوں جس کام پر لگایا ہوا ہے

غلط پڑے نہ کہیں پہلا ہی قدم یہ ہمارا
کہ ہم نے آنکھ کو انجام پر لگایا ہوا ہے

تمام شہر مشرف بہ کفر ہو کے رہے گا
یہ جس قماش کے اسلام پر لگایا ہوا ہے

لگا رکھے ہیں ہزاروں ہی اپنے کام پر اس نے
ہمیں بھی کوشش ناکام پر لگایا ہوا ہے

پلاتا رہتا ہوں دن رات اپنی آنکھ سے پانی
شجر یہ دل میں ترے نام پر لگایا ہوا ہے

وہ اور ہوں گے جو آرام سے گزار رہے ہیں
ہمیں تو اس نے کہیں لام پر لگایا ہوا ہے