کسی نظر نے مجھے جام پر لگایا ہوا ہے
سو کرتا رہتا ہوں جس کام پر لگایا ہوا ہے
غلط پڑے نہ کہیں پہلا ہی قدم یہ ہمارا
کہ ہم نے آنکھ کو انجام پر لگایا ہوا ہے
تمام شہر مشرف بہ کفر ہو کے رہے گا
یہ جس قماش کے اسلام پر لگایا ہوا ہے
لگا رکھے ہیں ہزاروں ہی اپنے کام پر اس نے
ہمیں بھی کوشش ناکام پر لگایا ہوا ہے
پلاتا رہتا ہوں دن رات اپنی آنکھ سے پانی
شجر یہ دل میں ترے نام پر لگایا ہوا ہے
وہ اور ہوں گے جو آرام سے گزار رہے ہیں
ہمیں تو اس نے کہیں لام پر لگایا ہوا ہے
غزل
کسی نظر نے مجھے جام پر لگایا ہوا ہے
آفتاب حسین