کسی میں تاب الم نہیں ہے کسی میں سوز وفا نہیں ہے
سنائیں کس کو حکایت غم کہ کوئی درد آشنا نہیں ہے
ہم انقلاب فلک کے ہاتھوں بہت ستائے ہوئے ہیں یارب
یہ نالۂ بیکسی ہمارا شکایت ناروا نہیں ہے
ہجوم وارفتگی کے ہاتھوں جو جاں چلی تو کھلا یہ عقدہ
کہ تار و پود خیال دل بر سے رشتۂ جاں جدا نہیں ہے
کل اس بت با وفا سے مل کر جو اور بیتاب ہو گیا دل
ہوا یہ ظاہر کہ رنج و غم کی جہاں میں کوئی دوا نہیں ہے
یہی ہے اب آرزو تبسمؔ کہ دم نکل جائے آہ کرتے
کہ تاب اظہار الفت یار شیوۂ آشنا نہیں ہے
غزل
کسی میں تاب الم نہیں ہے کسی میں سوز وفا نہیں ہے
صوفی تبسم