EN हिंदी
کسی مست خواب کا ہے عبث انتظار سو جا | شیح شیری
kisi mast-e-KHwab ka hai abas intizar so ja

غزل

کسی مست خواب کا ہے عبث انتظار سو جا

سرور جہاں آبادی

;

کسی مست خواب کا ہے عبث انتظار سو جا
کہ گزر گئی شب آدھی دل بے قرار سو جا

یہ نسیم ٹھنڈی ٹھنڈی یہ ہوا کے سرد جھونکے
تجھے دے رہے ہیں لوری مرے غم گسار سو جا

یہ تری صدائے نالہ مجھے متہم نہ کر دے
مرے پردہ دار سو جا مرے راز دار سو جا

مجھے خوں رلا رہا ہے ترا دم بدم تڑپنا
ترے غم میں آہ کب سے میں ہوں اشک بار سو جا

ابھی دھان پان ہے تو نہیں عاشقی کے قابل
یہ تپش کا آہ شیوہ نہ کر اختیار سو جا

نہ تڑپ زمیں پہ ظالم تجھے گود میں اٹھا لوں
تجھے سینے سے لگا لوں تجھے کر لوں پیار سو جا

تجھے جن کا ہے تصور ارے مست جام الفت
انہیں انکھڑیوں کے صدقے مرے بادہ خوار سو جا

تجھے پہلا سابقہ ہے شب غم بری بلا ہے
کہیں مر مٹے نہ ظالم دل بے قرار سو جا