کسی مقام پہ ہم کو بھی روکتا کوئی
مگر اڑائے لئے جاتی ہے ہوا کوئی
تمام عمر نہ مجھ کو ملا وجود مرا
تمام عمر مجھے سوچتا رہا کوئی
مجھے سمیٹ لو یا پھر اڑا کے لے جاؤ
یہ کہہ کے راہ طلب میں بکھر گیا کوئی
یوں ہی صدائیں نہ دو خامشی کے صحرا میں
ہوا چلے گی تو آ جائے گی صدا کوئی
کسی کو اپنی نگاہوں پہ اعتبار نہ تھا
ہمیں ہماری طرح کیسے دیکھتا کوئی
ہزار سنگ ہیں راہوں میں اب بھی سوئے ہوئے
یہ اور بات ہے ہم کو جگا گیا کوئی
بدن کے دشت کو ہم جس سے پار کر لیتے
کہیں ملا نہ ہمیں ایسا راستہ کوئی
میں بند کمرے میں خاموش رہ تو سکتا ہوں
مرے بدن میں اگر گھٹ کے مر گیا کوئی
غزل
کسی مقام پہ ہم کو بھی روکتا کوئی
عابد عالمی