کسی منظر کے پس منظر میں جا کر
چلو دیکھیں کسی پتھر میں جا کر
گھنے جنگل نے مجھ پر راز کھولا
نکل جاتا ہے ہر ڈر ڈر میں جا کر
خود اپنی ذات ہو جاتی ہے معدوم
خود اپنی ذات کے جوہر میں جا کر
مرے دل کی تمنا بن گیا ہے
وہ چہرہ میری چشم تر میں جا کر
سمٹ جاتے ہیں میرے ساتھ مجھ میں
مرے پاؤں مری چادر میں جا کر
تحیر خیز تھی اس کی فصاحت
وہ جب بھی چپ ہوا منبر میں جا کر
یہ زندہ شہر ہے تو کیسے زاہدؔ
میں مر جاتا ہوں اپنے گھر میں جا کر
غزل
کسی منظر کے پس منظر میں جا کر
زاہد شمسی