کسی کو زہر دوں گا اور کسی کو جام دوں گا
میں اپنے جاں نثاروں کو یہی انعام دوں گا
اندھیرے میں دمک اٹھتے ہیں جتنے بھی ستارے
اگر فرصت ملی تو میں انہیں کچھ نام دوں گا
کسی تاریک مٹی پر مجھے بھی ساتھ رکھنا
کہ میں تجھ کو کسی مشکل گھڑی میں کام دوں گا
تھکا ہارا ہوں تنہا ہوں مگر یہ بات طے ہے
میں تحفے میں تجھے اک روز ملک شام دوں گا
دکان اسلحہ سے میں نے جو شمشیر لی ہے
میں اس کے دام پوچھوں گا نہ اس کے دام دوں گا
مجھے ہر روز کہتا ہے یہ بات اب میرا بیٹا
تجھے میں اس بڑھاپے میں بہت آرام دوں گا

غزل
کسی کو زہر دوں گا اور کسی کو جام دوں گا
غلام حسین ساجد