کسی کی یاد رلائے تو کیا کیا جائے
شب فراق ستائے تو کیا کیا جائے
جو رفتہ رفتہ غم انتظار کی دیمک
مرے وجود کو کھائے تو کیا کیا جائے
شب فراق ہو یا ہو وصال کا موسم
یہ دل سکون نہ پائے تو کیا کیا جائے
دکھا کے چاند سا چہرہ وہ حسن کا پیکر
اسیر اپنا بنائے تو کیا کیا جائے
شراب نوشی سے میں دور بھاگتا ہوں مگر
کوئی نظر سے بھلائے تو کیا کیا جائے
مرے علاج کو کتنے طبیب آئے مگر
دوا بھی درد بڑھائے تو کیا کیا جائے
سکون ملتا ہے جس کی نگاہ سے افضلؔ
وہی نگاہ چرائے تو کیا کیا جائے
غزل
کسی کی یاد رلائے تو کیا کیا جائے
افضل الہ آبادی