EN हिंदी
کسی کی یاد رلائے تو کیا کیا جائے | شیح شیری
kisi ki yaad rulae to kya kiya jae

غزل

کسی کی یاد رلائے تو کیا کیا جائے

افضل الہ آبادی

;

کسی کی یاد رلائے تو کیا کیا جائے
شب فراق ستائے تو کیا کیا جائے

جو رفتہ رفتہ غم انتظار کی دیمک
مرے وجود کو کھائے تو کیا کیا جائے

شب فراق ہو یا ہو وصال کا موسم
یہ دل سکون نہ پائے تو کیا کیا جائے

دکھا کے چاند سا چہرہ وہ حسن کا پیکر
اسیر اپنا بنائے تو کیا کیا جائے

شراب‌ نوشی سے میں دور بھاگتا ہوں مگر
کوئی نظر سے بھلائے تو کیا کیا جائے

مرے علاج کو کتنے طبیب آئے مگر
دوا بھی درد بڑھائے تو کیا کیا جائے

سکون ملتا ہے جس کی نگاہ سے افضلؔ
وہی نگاہ چرائے تو کیا کیا جائے