EN हिंदी
کسی کی یاد میں دنیا کو ہیں بھلائے ہوئے | شیح شیری
kisi ki yaad mein duniya ko hain bhulae hue

غزل

کسی کی یاد میں دنیا کو ہیں بھلائے ہوئے

راجیندر کرشن

;

کسی کی یاد میں دنیا کو ہیں بھلائے ہوئے
زمانہ گزرا ہے اپنا خیال آئے ہوئے

بڑی عجیب خوشی ہے غم محبت بھی
ہنسی لبوں پہ مگر دل پہ چوٹ کھائے ہوئے

ہزار پردے ہوں پہرے ہوں یا ہوں دیواریں
رہیں گے میری نظر میں تو وہ سمائے ہوئے

کسی کے حسن کی بس اک کرن ہی کافی ہے
یہ لوگ کیوں مرے آگے ہیں شمع لائے ہوئے