کسی کی یاد میں دنیا کو ہیں بھلائے ہوئے
زمانہ گزرا ہے اپنا خیال آئے ہوئے
بڑی عجیب خوشی ہے غم محبت بھی
ہنسی لبوں پہ مگر دل پہ چوٹ کھائے ہوئے
ہزار پردے ہوں پہرے ہوں یا ہوں دیواریں
رہیں گے میری نظر میں تو وہ سمائے ہوئے
کسی کے حسن کی بس اک کرن ہی کافی ہے
یہ لوگ کیوں مرے آگے ہیں شمع لائے ہوئے
غزل
کسی کی یاد میں دنیا کو ہیں بھلائے ہوئے
راجیندر کرشن