کسی کی یاد کو اپنا شعار کر لیں گے
فضائے دہر کو ہم سازگار کر لیں گے
ہم اپنے غم کو خوشی میں شمار کر لیں گے
خزاں کے دور میں جشن بہار کر لیں گے
رسائی ہوگی جو اس بزم میں کبھی اپنی
نصیب والوں میں اپنا شمار کر لیں گے
کبھی ملے گا جو اذن عبودیت ہم کو
تو ایک سانس میں سجدے ہزار کر لیں گے
رہا کرم جو تمہارا تو بحر ہستی سے
ہم اپنی کشتئ امید پار کر لیں گے
تری تلاش میں آئیں گے کام داغ جگر
ہم ان سے روشنیٔ رہگزر کر لیں گے
خوشی سے ملنے لگے ہیں وہ آج کل ہم سے
ہم اپنی زیست کو اب خوش گوار کر لیں گے
نظر ہے در پہ ہماری کہ دم ہے آنکھوں میں
ابھی کچھ اور ترا انتظار کر لیں گے
ہم اپنے خلق کی دنیا سنوار کر خوشترؔ
حصول رحمت پروردگار کر لیں گے
غزل
کسی کی یاد کو اپنا شعار کر لیں گے
ممتاز احمد خاں خوشتر کھنڈوی