EN हिंदी
کسی کی دین ہے لیکن مری ضرورت ہے | شیح شیری
kisi ki den hai lekin meri zarurat hai

غزل

کسی کی دین ہے لیکن مری ضرورت ہے

ذیشان ساحل

;

کسی کی دین ہے لیکن مری ضرورت ہے
جنوں کمال نہیں ہے کمال وحشت ہے

میں زندگی کے سبھی غم بھلائے بیٹھا ہوں
تمہارے عشق سے کتنی مجھے سہولت ہے

گزر گئی ہے مگر روز یاد آتی ہے
وہ ایک شام جسے بھولنے کی حسرت ہے

زمانے والے تو شاید نہیں کسی قابل
جو ملتا رہتا ہوں ان سے مری مروت ہے

ہوا بہار کی آئے گی اور میں چوموں گا
وہ سارے پھول کہ جن میں تری شباہت ہے

خدا رکھے تری آنکھوں کی دل نوازی کو
تری نگاہ مری عمر بھر کی دولت ہے

ترے بغیر بجھا جا رہا ہوں اندر سے
جو ٹھیک ٹھاک ہوں باہر سے تو یہ عادت ہے

جو ہو سکے تو مجھے اپنے پاس رکھ لینا
ترا وصال تو اک ثانوی سعادت ہے

ترے بغیر کوئی کیسے زندہ رہتا ہے
مگر میں ہوں کہ یہی عشق کی روایت ہے