کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپک رہے ہوں گے
تمام شہر میں جگنو چمک رہے ہوں گے
چھپا کے رکھے ہیں کپڑوں کے بیچ میں اس نے
مرے خطوط یقیناً مہک رہے ہوں گے
کھلی ہے دھوپ کئی دن کے بعد آنگن میں
پھر الگنی پہ دوپٹے لٹک رہے ہوں گے
وہ چھت پہ بال سکھانے کو آ گئی ہوگی
نہ جانے اب کہاں بادل بھٹک رہے ہوں گے
مرے جلائے ہوئے سرخ سرخ انگارے
تمہارے ہونٹوں پہ اب تک دہک رہے ہوں گے
غزل
کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپک رہے ہوں گے
شکیل شمسی