کسی خیال کی شبنم سے نم نہیں ہوتا
عجیب درد ہے بڑھتا ہے کم نہیں ہوتا
میں آ رہا ہوں ابھی چوم کر بدن اس کا
سنا تھا آگ پہ بوسہ رقم نہیں ہوتا
تمہارے ساتھ میں چل تو رہا ہوں چلنے کو
ہر اک ہجوم میں لیکن میں ضم نہیں ہوتا
میں ایسے خطۂ زرخیز کا مکیں ہوں جہاں
صنم تراش کو پتھر بہم نہیں ہوتا
جنہیں یہ ضد ہو کہ چوٹی تلک پہنچنا ہے
انہیں پہاڑ سے گرنے کا غم نہیں ہوتا
غزل
کسی خیال کی شبنم سے نم نہیں ہوتا
شناور اسحاق