کسی خطا سے ہمیں انحراف تھوڑی ہے
ہمارا خود سے کوئی اختلاف تھوڑی ہے
بصارتوں کے علم دار ہیں یہاں کچھ لوگ
ہر اک نظر پہ اندھیرا غلاف تھوڑی ہے
کبھی تو ہم بھی تمہارا سراغ پا لیں گے
تمہارا شہر کوئی کوہ قاف تھوڑی ہے
یہ آئینہ تمہیں تم سا دکھا نہیں سکتا
اگرچہ صاف ہے اتنا بھی صاف تھوڑی ہے
زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
یہ جانتے ہیں سبھی انکشاف تھوڑی ہے
زمیں کا گھاؤ ہے مٹی سے بھر ہی جائے گا
ہمارے دل کی طرح کا شگاف تھوڑی ہے
ہم احتجاج بپا کر رہے ہیں اپنے خلاف
ہمارا شہر ہمارے خلاف تھوڑی ہے
اسی لیے تو نہاتا ہے بارشوں میں وجود
ہے آب دیدہ مگر اعتراف تھوڑی ہے

غزل
کسی خطا سے ہمیں انحراف تھوڑی ہے
اشرف علی اشرف