کسی کے وعدۂ فردا پر اعتبار تو ہے
طلوع صبح قیامت کا انتظار تو ہے
مری جگہ نہ رہی تیری بزم میں لیکن
تری زباں پہ مرا ذکر ناگوار تو ہے
متاع درد کو دل سے عزیز رکھتا ہوں
کہ یہ کسی کی محبت کی یادگار تو ہے
یہ اور بات کہ اقرار کر سکیں نہ کبھی
مری وفا کا مگر ان کو اعتبار تو ہے
مقام دل کوئی منزل نہ بن سکا نہ سہی
تری نگاہ محبت کی رہ گزار تو ہے
وہ ذوق دید نہ شوق نظارہ اب لیکن
مری نظر کو ابھی ان کا انتظار تو ہے
اگر نگاہ کرم شیوہ اب نہیں نہ سہی
مری طرف ابھی چشم ستم شعار تو ہے
یہ اور بات نصیب نظر نہیں لیکن
نفس نفس ترے جلووں سے ہمکنار تو ہے
زمانہ ساتھ نہیں دے رہا تو کیا اخترؔ
ابھی جلو میں مرے بخت سازگار تو ہے
غزل
کسی کے وعدۂ فردا پر اعتبار تو ہے
علیم اختر