EN हिंदी
کسی کے روبرو بیٹھا رہا میں بے زباں ہو کر | شیح شیری
kisi ke ru-ba-ru baiTha raha main be-zaban ho kar

غزل

کسی کے روبرو بیٹھا رہا میں بے زباں ہو کر

حفیظ جالندھری

;

کسی کے روبرو بیٹھا رہا میں بے زباں ہو کر
مری آنکھوں سے حسرت پھوٹ نکلی داستاں ہو کر

خدا حافظ کسی کے راز الفت کا خدا حافظ
خیال آتے ہی اب تو دل دھڑکتا ہے فغاں ہو کر

پیا آب بقا اے خضر اب تاثیر بھی دیکھو
قیامت تک رہو پابند عمر جاوداں ہو کر

یکایک وہ مریض غم کی صورت کا بدل جانا
وہ رو دینا کسی نا مہرباں کا مہرباں ہو کر

کتاب دہر کا دلچسپ ٹکڑا ہے مری ہستی
مجھے دیکھو کہ بیٹھا ہوں مجسم داستاں ہو کر

سنا ہے اس طرف سے بھی جناب عشق گزریں گے
مری ہستی نہ اڑ جائے غبار کارواں ہو کر