کسی کے روبرو بیٹھا رہا میں بے زباں ہو کر
مری آنکھوں سے حسرت پھوٹ نکلی داستاں ہو کر
خدا حافظ کسی کے راز الفت کا خدا حافظ
خیال آتے ہی اب تو دل دھڑکتا ہے فغاں ہو کر
پیا آب بقا اے خضر اب تاثیر بھی دیکھو
قیامت تک رہو پابند عمر جاوداں ہو کر
یکایک وہ مریض غم کی صورت کا بدل جانا
وہ رو دینا کسی نا مہرباں کا مہرباں ہو کر
کتاب دہر کا دلچسپ ٹکڑا ہے مری ہستی
مجھے دیکھو کہ بیٹھا ہوں مجسم داستاں ہو کر
سنا ہے اس طرف سے بھی جناب عشق گزریں گے
مری ہستی نہ اڑ جائے غبار کارواں ہو کر
غزل
کسی کے روبرو بیٹھا رہا میں بے زباں ہو کر
حفیظ جالندھری