EN हिंदी
کسی کے لب پہ بھولے پن سے میرا نام ہے شاید | شیح شیری
kisi ke lab pe bhole-pan se mera nam hai shayad

غزل

کسی کے لب پہ بھولے پن سے میرا نام ہے شاید

شانتی لال ملہوترہ

;

کسی کے لب پہ بھولے پن سے میرا نام ہے شاید
مری بے چارگی سے پھر کسی کو کام ہے شاید

یہ ہلچل سی مچی ہے آج جو سارے زمانے میں
سنا ہے کچھ ہمارے واسطے پیغام ہے شاید

تمہیں بھی راس آئے یا نہ آئے آج کا عالم
تمہارا بھی ہماری ہی طرح انجام ہے شاید

زمانے کو نہیں بھایا مرا خاموش سا رہنا
خموشی بھی مری اب مورد الزام ہے شاید

نہ کالی رات کٹتی ہے نہ روشن دن گزرتا ہے
کسی سے دل لگانے کا یہی انجام ہے شاید

اثر کرتا اگر نالہ تو پتھر موم ہو جاتا
ابھی جذب محبت ہی ہمارا خام ہے شاید

فقط رسوائیاں لکھی ہیں شاداںؔ کے مقدر میں
رہ الفت میں چلنے کا یہی انعام ہے شاید