کسی کے لب پہ بھولے پن سے میرا نام ہے شاید
مری بے چارگی سے پھر کسی کو کام ہے شاید
یہ ہلچل سی مچی ہے آج جو سارے زمانے میں
سنا ہے کچھ ہمارے واسطے پیغام ہے شاید
تمہیں بھی راس آئے یا نہ آئے آج کا عالم
تمہارا بھی ہماری ہی طرح انجام ہے شاید
زمانے کو نہیں بھایا مرا خاموش سا رہنا
خموشی بھی مری اب مورد الزام ہے شاید
نہ کالی رات کٹتی ہے نہ روشن دن گزرتا ہے
کسی سے دل لگانے کا یہی انجام ہے شاید
اثر کرتا اگر نالہ تو پتھر موم ہو جاتا
ابھی جذب محبت ہی ہمارا خام ہے شاید
فقط رسوائیاں لکھی ہیں شاداںؔ کے مقدر میں
رہ الفت میں چلنے کا یہی انعام ہے شاید
غزل
کسی کے لب پہ بھولے پن سے میرا نام ہے شاید
شانتی لال ملہوترہ