EN हिंदी
کسی کے خواب سے باقی نہ بیداری سے قائم ہے | شیح شیری
kisi ke KHwab se baqi na bedari se qaem hai

غزل

کسی کے خواب سے باقی نہ بیداری سے قائم ہے

مہتاب حیدر نقوی

;

کسی کے خواب سے باقی نہ بیداری سے قائم ہے
جہان درد بس میری ادا کاری سے قائم ہے

زباں سے کچھ نہیں کہتے سو دل کو ہول آتا ہے
کہ یہ شہر ہوس کس کی دل آزاری سے قائم ہے

جہاں میں بے ہنر لوگوں کو کوئی کیسے سمجھائے
کہ یہ دنیا ابھی تک کار بے کاری سے قائم ہے

خزاں کے گیت تو ہم لوگ کب سے گاتے آئے ہیں
فنا کا خوف پھر کس کی جہانداری سے قائم ہے

رخ مہتاب سے کچھ بھی عیاں ہوتا رہے لیکن
یہ کاروبار دنیا صرف عیاری سے قائم ہے