کسی کے خواب سے باقی نہ بیداری سے قائم ہے
جہان درد بس میری ادا کاری سے قائم ہے
زباں سے کچھ نہیں کہتے سو دل کو ہول آتا ہے
کہ یہ شہر ہوس کس کی دل آزاری سے قائم ہے
جہاں میں بے ہنر لوگوں کو کوئی کیسے سمجھائے
کہ یہ دنیا ابھی تک کار بے کاری سے قائم ہے
خزاں کے گیت تو ہم لوگ کب سے گاتے آئے ہیں
فنا کا خوف پھر کس کی جہانداری سے قائم ہے
رخ مہتاب سے کچھ بھی عیاں ہوتا رہے لیکن
یہ کاروبار دنیا صرف عیاری سے قائم ہے
غزل
کسی کے خواب سے باقی نہ بیداری سے قائم ہے
مہتاب حیدر نقوی

