کسی کے خواب کا سایہ تھا کافی وقت ہوا
ہماری نیند پہ چھایا تھا کافی وقت ہوا
درخت ذہن پہ بیٹھا تھا پر سمیٹے ہوے
پرند یاد اڑایا تھا کافی وقت ہوا
بچھڑ کے آپ سے ہم بچھڑے کتنی چیزوں سے
بہت سا ہجر کمایا تھا کافی وقت ہوا
جہاں سمائی ہے اب فکر روزگار وہاں
کبھی جنون سمایا تھا کافی وقت ہوا
ہے لا جواب ابھی تک یہ صورت حالات
کوئی سوال اٹھایا تھا کافی وقت ہوا
غزل
کسی کے خواب کا سایہ تھا کافی وقت ہوا
سنیل کمار جشن