کسی کے دست طلب کو پکارتا ہوں میں
اٹھاؤ ہاتھ مجھے مانگ لو دعا ہوں میں
مرے ازل اور ابد میں نہیں ہے فصل کوئی
ابھی شروع ابھی ختم ہو گیا ہوں میں
بسی ہے مجھ میں یگوں سے عجیب ویرانی
بدن سے روح تلک بے کراں خلا ہوں میں
نہ کوئی آگ ہے مجھ میں نہ روشنی نہ دھواں
کسی کے خواب میں جلتا ہوا دیا ہوں میں
نظر کے واسطے اپنا نظارہ کافی ہے
خود اپنا عکس ہوں خود اپنا آئینہ ہوں میں
بھٹک رہا ہوں میں بے انت شاہراہوں پر
تمہارے شہر میں بالکل نیا نیا ہوں میں
غزل
کسی کے دست طلب کو پکارتا ہوں میں
قمر صدیقی