کسی کا قہر کسی کی دعا ملے تو سہی
سہی وہ دشمن جاں آشنا ملے تو سہی
ابھی تو لال ہری بتیوں کو دیکھتے ہیں
ملے کسی کی خبر سلسلہ ملے تو سہی
یہ قید ہے تو رہائی بھی اب ضروری ہے
کسی بھی سمت کوئی راستہ ملے تو سہی
یہ شام سرد میں ہر سو الاؤ جلتے ہیں
سیہ خموشی میں کوئی صدا ملے تو سہی
قبائے جسم کہ ہے تار تار نذر کریں
کبھی کہیں وہی پاگل ہوا ملے تو سہی
غزل
کسی کا قہر کسی کی دعا ملے تو سہی
عبد الحمید