کسی کا نقش جو پل بھر رہا ہے آنکھوں میں
بڑے خلوص سے گھر کر رہا ہے آنکھوں میں
زمیں سے تا بہ ثریا ہے روشنی لیکن
یہاں تو رات کا منظر رہا ہے آنکھوں میں
چلا گیا ہے تصور کی سرحدوں سے پرے
وہ ایک شخص جو اکثر رہا ہے آنکھوں میں
ابھی ابھی کوئی شہر طرب سے گزرا ہے
کسے دکھاؤں دھواں بھر رہا ہے آنکھوں میں
تری نظر میں مروت اگر نہیں نہ سہی
مرا خلوص برابر رہا ہے آنکھوں میں

غزل
کسی کا نقش جو پل بھر رہا ہے آنکھوں میں
محمد علی اثر