کسی کا جسم ہوا جان و دل کسی کے ہوئے
ہزار ٹکڑے مری ایک زندگی کے ہوئے
بدل سکا نہ کوئی اپنی قسمتوں کا نظام
جو تو نے چاہا وہی حال زندگی کے ہوئے
جو سارے شہر کے پتھر لیے تھا دامن میں
تمام شیشے طرفدار بس اسی کے ہوئے
بدلتے وقت نے تقسیم کر دیا مجھ کو
تھے میرے خواب جو تیرے وہی کسی کے ہوئے
تمام عمر رہی ہے مخالفت جس سے
رئیسؔ ہم بھی طرفدار پھر اسی کے ہوئے

غزل
کسی کا جسم ہوا جان و دل کسی کے ہوئے
رئیس صدیقی