کسی حسرت زدہ نے خود کشی منظور کی دل سے
صدا لبیک کی سن کر زمین کوئے قاتل سے
خدا کے واسطے دم بھر تو اے باد اجل تھم جا
کہ لے لوں کچھ ہوا میں دامن شمشیر قاتل سے
ٹھہرنا او دل بے تاب پھر تو بھی تو سینے میں
نکل آئے تڑپ کر موج جب آغوش ساحل سے
زمیں سے آسماں تک میری بیتابی کا چرچا ہے
سبق لیتی ہے بجلی آ کے میرے قلب بسمل سے
کوئی تدبیر سوچو تاکہ دل آ جائے قابو میں
کہیں میں قید ہو سکتا ہوں ان طوق و سلاسل سے
ابھی دیکھو تو میری مشق کس حد تک پہنچتی ہے
بنا لوں گا کبھی تم کو بھی اپنا جذب کامل سے
گرا تھا قطرۂ اول جو میرے خون ناحق سے
اٹھی تھی سرخ اک آندھی زمین کوئے قاتل سے
وہ اب آتے ہی ہوں گے اور یاں پر آ کے بیٹھیں گے
خداوندا یہ باتیں کب تلک عالمؔ کرے دل سے
غزل
کسی حسرت زدہ نے خود کشی منظور کی دل سے
میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی