EN हिंदी
کسی حبیب نے لفظوں کا ہار بھیجا ہے | شیح شیری
kisi habib ne lafzon ka haar bheja hai

غزل

کسی حبیب نے لفظوں کا ہار بھیجا ہے

حسن نعیم

;

کسی حبیب نے لفظوں کا ہار بھیجا ہے
بسا کے عطر میں دل کا غبار بھیجا ہے

ہوئی جو شام تو اپنا لباس پہنا کر
شفق کو جیسے دم انتظار بھیجا ہے

کسی نے ڈوبتی صبحوں تڑپتی شاموں کو
غزل کے جام میں شب کا خمار بھیجا ہے

سجا کے دامن گل کو شرارۂ نم سے
کسی نے تاج دل داغ دار بھیجا ہے

کسے بلانے کو اس لالۂ وفا نے حسنؔ
صبا کو میری طرف بار بار بھیجا ہے