EN हिंदी
کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں | شیح شیری
kisi guman pe tawaqqoa ziyaada rakhte hain

غزل

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں

فیض احمد فیض

;

کسی گماں پہ توقع زیادہ رکھتے ہیں
پھر آج کوئے بتاں کا ارادہ رکھتے ہیں

بہار آئے گی جب آئے گی یہ شرط نہیں
کہ تشنہ کام رہیں گرچہ بادہ رکھتے ہیں

تری نظر کا گلہ کیا جو ہے گلہ دل کا
تو ہم سے ہے کہ تمنا زیادہ رکھتے ہیں

نہیں شراب سے رنگیں تو غرق خوں ہیں کہ ہم
خیال وضع قمیص و لبادہ رکھتے ہیں

غم جہاں ہو غم یار ہو کہ تیر ستم
جو آئے آئے کہ ہم دل کشادہ رکھتے ہیں

جواب واعظ چابک زباں میں فیضؔ ہمیں
یہی بہت ہیں جو دو حرف سادہ رکھتے ہیں