کسی دن زندگانی میں کرشمہ کیوں نہیں ہوتا
میں ہر دن جاگ تو جاتا ہوں زندہ کیوں نہیں ہوتا
مری اک زندگی کے کتنے حصے دار ہیں لیکن
کسی کی زندگی میں میرا حصہ کیوں نہیں ہوتا
جہاں میں یوں تو ہونے کو بہت کچھ ہوتا رہتا ہے
میں جیسا سوچتا ہوں کچھ بھی ویسا کیوں نہیں ہوتا
ہمیشہ طنز کرتے ہیں طبیعت پوچھنے والے
تم اچھا کیوں نہیں کرتے میں اچھا کیوں نہیں ہوتا
زمانے بھر کے لوگوں کو کیا ہے مبتلا تو نے
جو تیرا ہو گیا تو بھی اسی کا کیوں نہیں ہوتا
غزل
کسی دن زندگانی میں کرشمہ کیوں نہیں ہوتا
راجیش ریڈی