کسی دل میں میرے لئے پیار کیوں ہو
یہ ایثار ہے اور ایثار کیوں ہو
تباہی ہو جب آرزو کا مقدر
تو دل اس تباہی سے ہشیار کیوں ہو
یہ خوددار ہونا ہی لایا خرابی
محبت میں انسان خوددار کیوں ہو
کوئی اپنے ہی غم سے خالی کہاں ہے
جہاں میں کوئی میرا غم خوار کیوں ہو
نہ پہلا سا ملنا نہ آنا نہ جانا
اب اتنے بھی تم مجھ سے بیزار کیوں ہو
اسی کشمکش نے ڈبویا جہاں کو
انہیں جیت کیوں ہو مجھے ہار کیوں ہو
جفا پر نہیں جب وہ دل ہی میں نادم
نظر سے ندامت کا اظہار کیوں ہو
اگر بخش دینے پہ تیار ہو تم
مجھے جرم سے اپنے انکار کیوں ہو
غزل
کسی دل میں میرے لئے پیار کیوں ہو
نظیر صدیقی