کسی دیار کسی دشت میں صبا لے چل
کہیں قیام نہ کر مجھ کو جا بہ جا لے چل
میں اپنی آنکھیں بھی رکھ آؤں اس کی چوکھٹ پر
یہ سارے خواب مرے اور رت جگا لے چل
میں اپنی راکھ اڑاؤں گا جل بجھوں گا وہیں
مجھے بھی اس کی گلی میں ذرا ہوا لے چل
ہتھیلیوں کی لکیروں میں اس کا چہرا ہے
یہ میرے ہاتھ لیے جا مری دعا لے چل
بدن کی خاک ان آنکھوں کی اک امانت ہے
قدم اٹھیں نہ اٹھیں زندگی سنبھالے چل
غزل
کسی دیار کسی دشت میں صبا لے چل
تسلیم الہی زلفی