کسی دشت و در سے گزرنا بھی کیا
ہوئے خاک جب تو بکھرنا بھی کیا
وہی اک سمندر وہی اک ہوا
مری شام تیرا سنورنا بھی کیا
لکیروں کے ہیں کھیل سب زاویے
ادھر سے ادھر پاؤں دھرنا بھی کیا
مجھے اوب سی سب سے ہونے لگی
یہ جینا بھی کیا اور مرنا بھی کیا
اگر ان سے بچ کر نکل جائیے
تو پھر اس کی آنکھوں سے ڈرنا بھی کیا
گھنے جنگلوں کی بجھی کیسے آگ
کہیں پاس تھا کوئی جھرنا بھی کیا
کسی طرح سے اس کا گھر تو ملا
مگر اب ملاقات کرنا بھی کیا
غزل
کسی دشت و در سے گزرنا بھی کیا
عبد الحمید