کسی بت کے شکم سے گر کوئی آذر نکل آئے
خرد کا بند ٹوٹے اور اک پتھر نکل آئے
تقاضے جب بدن کے روح میں ڈھل کر نکل آئے
قبا کے بند ٹوٹے اور حسیں بستر نکل آئے
زمانہ نا شناسی کا مروت بے خیالی کی
نہ جانے کس گلی کس موڑ پر خنجر نکل آئے
اگے ہیں خواب زاروں میں مناظر سر تراشی کے
سہانی وادیوں میں باؤلے لشکر نکل آئے
تھکن کا بوجھ لے کر کوئی کتنی دور چلتا ہے
مگر جب راہ میں اک میل کا پتھر نکل آئے
چھپا کر جن چراغوں کو نہاں خانے میں رکھا تھا
فصیل جاں پہ جلنے کے لئے کیوں کر نکل آئے

غزل
کسی بت کے شکم سے گر کوئی آذر نکل آئے
خالد جمال