کسی بہانے بھی دل سے الم نہیں جاتا
خوشی تو جانے کو آتی ہے غم نہیں جاتا
کسی کو ملنا ہو اس سے تو خود ہی چل کر جائے
کہ اپنے آپ کہیں وہ صنم نہیں جاتا
نشانہ اس کا ہمیشہ نشاں پہ لگتا ہے
گو دل کے پار وہ تیر ستم نہیں جاتا
ہم اپنے دائرۂ کار ہی میں رہتے ہیں
نکل کے اس سے یہ باہر قدم نہیں جاتا
یہی بہت ہے کہ قابو میں اشک رہتے ہیں
یہ اور بات کہ پلکوں سے نم نہیں جاتا
غزل
کسی بہانے بھی دل سے الم نہیں جاتا
فرخ جعفری