کسی اور کو میں ترے سوا نہیں چاہتا
سو کسی سے تیرا موازنہ نہیں چاہتا
کوئی کند ذہن قبیل سے ہے مرے خلاف
کہ وہ روشنی کا ہی ارتقا نہیں چاہتا
تو حسین ہے سو مغالطے میں نہ خرچ ہو
مرے دوست دل سے تجھے ذرا نہیں چاہتا
ترا وصل چاہے رگوں میں زہر اتار دے
ترے ہجر کا کبھی اژدہا نہیں چاہتا
ابھی دل کو ماضی کی صحبتوں کا ملال ہے
نئے شہر میں کوئی آشنا نہیں چاہتا
یہ پرند پیڑ چراغ تو مرے ساتھ ہیں
مرا خاندان مری رضا نہیں چاہتا
غزل
کسی اور کو میں ترے سوا نہیں چاہتا
عطاالحسن