EN हिंदी
کسی اپنے سے ہوتی ہے نہ بیگانے سے ہوتی ہے | شیح شیری
kisi apne se hoti hai na begane se hoti hai

غزل

کسی اپنے سے ہوتی ہے نہ بیگانے سے ہوتی ہے

فگار اناوی

;

کسی اپنے سے ہوتی ہے نہ بیگانے سے ہوتی ہے
جو الفت ایک دیوانے کو دیوانے سے ہوتی ہے

سبو سے جام سے مینا سے پیمانے سے ہوتی ہے
محبت مے سے ہو کر سارے مے خانے سے ہوتی ہے

کوئی قصہ ہو کوئی واقعہ کوئی حکایت ہو
تسلی دل کو درد دل کے افسانے سے ہوتی ہے

مری توبہ سے کہہ دو وہ بھی آ کر شوق سے سن لے
عجب آواز پیدا دل کے پیمانے سے ہوتی ہے

نظر سے چھپنے والے دل سے آخر کیوں نہیں چھپتے
یہ کیسی بے حجابی آئنہ خانے سے ہوتی ہے

بہار چند روزہ سے کوئی مانگے تو کیا مانگے
خزاں کو بھی ندامت ہاتھ پھیلانے سے ہوتی ہے

گھٹائیں غم کی چھٹ جاتی ہیں ان کے مسکرانے سے
کہ جیسے صبح پیدا رات ڈھل جانے سے ہوتی ہے

فگارؔ احساس دل میں ہر طرف کانٹے ہی کانٹے ہیں
یہی تسکین گلشن میں بہار آنے سے ہوتی ہے