EN हिंदी
کسی آسیب زدہ دل کی صدا ہے کیا ہے | شیح شیری
kisi aaseb-zada dil ki sada hai kya hai

غزل

کسی آسیب زدہ دل کی صدا ہے کیا ہے

شہباز رضوی

;

کسی آسیب زدہ دل کی صدا ہے کیا ہے
یہ مرے ساتھ سمندر ہے ہوا ہے کیا ہے

سلوٹیں روح کی آتی ہیں نظر جسموں پر
دل ناداں یہ کوئی بند قبا ہے کیا ہے

اس کے ہم راہ بھی چلنا ہے مگر سوچو تو
راستے میں جو کہیں چھوٹ گیا ہے کیا ہے

کون اس پل مری تنہائی سے ہے خوف زدہ
یار دیکھو تو ذرا فون بجا ہے کیا ہے

میرے اندر یہ سمٹتی ہوئی دنیا دیکھو
جان جاؤ گے کہ جو مجھ سے جدا ہے کیا ہے

ڈھونڈے تو میری شہ رگ میں لہو کی سرخی
یہ جو ان آنکھوں میں اک رنگ بچا ہے کیا ہے