کسی آسیب زدہ دل کی صدا ہے کیا ہے
یہ مرے ساتھ سمندر ہے ہوا ہے کیا ہے
سلوٹیں روح کی آتی ہیں نظر جسموں پر
دل ناداں یہ کوئی بند قبا ہے کیا ہے
اس کے ہم راہ بھی چلنا ہے مگر سوچو تو
راستے میں جو کہیں چھوٹ گیا ہے کیا ہے
کون اس پل مری تنہائی سے ہے خوف زدہ
یار دیکھو تو ذرا فون بجا ہے کیا ہے
میرے اندر یہ سمٹتی ہوئی دنیا دیکھو
جان جاؤ گے کہ جو مجھ سے جدا ہے کیا ہے
ڈھونڈے تو میری شہ رگ میں لہو کی سرخی
یہ جو ان آنکھوں میں اک رنگ بچا ہے کیا ہے
غزل
کسی آسیب زدہ دل کی صدا ہے کیا ہے
شہباز رضوی