کشت دیار صبح سے تارے اگاؤں میں
جی چاہتا ہے نت نئے منظر دکھاؤں میں
وہ شخص چیختا ہوا انبوہ بن چکا
کس کس کو بولنے دوں کسے چپ کراؤں میں
اب تو ہنسی بھی ختم ہے افسردگی بھی ختم
لب بستۂ ازل تجھے کتنا ہنساؤں میں
اک خواب مثل اشک نکل آئے چشم سے
دروازۂ گماں جو کبھی کھٹکھٹاؤں میں
تو آ چکا ہے دیکھ لیا مان بھی لیا
اب اور کیا کروں تجھے سر پر بٹھاؤں میں
کیا فرق پڑ سکے گا اندھیرے کی شرح میں
کچھ دیر روشنی سے اگر بھر بھی جاؤں میں
خاموش رہ کہ پھر تری آواز سن سکوں
نظروں سے دور جا کہ تجھے دیکھ پاؤں میں
آئینے اس طرح مجھے تکتا ہے کس لیے
پہچان بھی لیا کہ تعارف کراؤں میں
شارقؔ ہر ایک شکل سے ملتی ہے کوئی شکل
آخر بدن پہ کون سا چہرہ لگاؤں میں
غزل
کشت دیار صبح سے تارے اگاؤں میں
سعید شارق