کسے بتاؤں کہ وحشت کا فائدہ کیا ہے
ہوا میں پھول کھلانے کا قاعدہ کیا ہے
پیمبروں نے کہا تھا کہ جھوٹ ہارے گا
مگر یہ دیکھیے اپنا مشاہدہ کیا ہے
تمام عمر کی زحمت کا اجر یہ دنیا
یہ کس سے پوچھئے آخر معاہدہ کیا ہے
سبھی خموش ہیں افسردگی کا دفتر ہیں
کھلے تو کیسے کہ وہ حکم عائدہ کیا ہے
اسی کا خواب ہے میری نوائے خواب نعیمؔ
مرا وجود بھی اس سے علاحدہ کیا ہے
غزل
کسے بتاؤں کہ وحشت کا فائدہ کیا ہے
حسن نعیم