کسے بتائیں کہ کیا غم رہا ہے آنکھوں میں
ہر ایک سلسلہ درہم رہا ہے آنکھوں میں
یہاں نہ ساون و بھادوں نہ جیٹھ ہے نہ اساڑھ
بس ایک خون کا موسم رہا ہے آنکھوں میں
لہو کی آنکھ تھی وہ یا گلو بریدہ تھا
یہ کیسے خوف کا عالم رہا ہے آنکھوں میں
کبھی ہے درد کا چہرہ کبھی سکون نظر
یہ اہتمام تو پیہم رہا ہے آنکھوں میں
غزل
کسے بتائیں کہ کیا غم رہا ہے آنکھوں میں
علی ظہیر لکھنوی