EN हिंदी
کسے بتائیں کہ کیا غم رہا ہے آنکھوں میں | شیح شیری
kise bataen ki kya gham raha hai aankhon mein

غزل

کسے بتائیں کہ کیا غم رہا ہے آنکھوں میں

علی ظہیر لکھنوی

;

کسے بتائیں کہ کیا غم رہا ہے آنکھوں میں
ہر ایک سلسلہ درہم رہا ہے آنکھوں میں

یہاں نہ ساون و بھادوں نہ جیٹھ ہے نہ اساڑھ
بس ایک خون کا موسم رہا ہے آنکھوں میں

لہو کی آنکھ تھی وہ یا گلو بریدہ تھا
یہ کیسے خوف کا عالم رہا ہے آنکھوں میں

کبھی ہے درد کا چہرہ کبھی سکون نظر
یہ اہتمام تو پیہم رہا ہے آنکھوں میں