EN हिंदी
کسے عزیز نہیں ہوگی زندگی میری | شیح شیری
kise aziz nahin hogi zindagi meri

غزل

کسے عزیز نہیں ہوگی زندگی میری

کویتا کرن

;

کسے عزیز نہیں ہوگی زندگی میری
کسی پہ بار ہی کب تھی یہاں خوشی میری

بغیر اس سے ملے اس کے گھر سے لوٹی ہوں
کہاں گئی تھی مجھے لے کے سادگی میری

کبھی جو بھولنا چاہو گے دشمنی کے دن
ہمیشہ یاد دلائے گی دوستی میری

تمہیں وہ چین سے سونے کبھی نہیں دے گی
ستائے گی تمہیں ہر بات پہ کمی میری

مہکتا جھومتا اک تازہ پھول ہوں میں بھی
بکھر گئی ہے ہواؤں میں تازگی میری

اسی مقام پہ تم بھی کرن چلے آؤ
جہاں پہ تم نے بدل دی تھی زندگی میری