EN हिंदी
کسے اب داستاں اپنی سنائیں | شیح شیری
kise ab dastan apni sunaen

غزل

کسے اب داستاں اپنی سنائیں

مرلی دھر شرما طالب

;

کسے اب داستاں اپنی سنائیں
مقابل آئنہ کے بیٹھ جائیں

جو آتا ہے گزر جاتا ہے پھر بھی
زمین دل کی خاک اب کیوں اڑائیں

ہزاروں لوگ تشنہ لب یہاں ہیں
وضو کیسے کریں کیسے نہائیں

اندھیرا ہی اندھیرا ہر طرف ہے
چراغ دل کہاں تک ہم جلائیں

اسی اک بات کا چرچا بہت ہے
جسے ہم نے تو چاہا تھا چھپائیں

چمن کا گوشہ گوشہ جل رہا ہے
کسی چھوڑیں یہاں کس کو بچائیں

زمیں کا ایک ٹکڑا ہے جہاں پر
ادب کے ساتھ چلتی ہے ہوائیں

مسلسل زخم کا پردہ کہاں تک
کہاں تک تیر کھا کر مسکرائیں

نظر کی شمع روشن کر رہا ہوں
نہ جانے کب ستارے ڈوب جائیں

ابھی اتنی محبت بھی بہت ہے
گئے وہ دن کہ تم کو آزمائیں

بچھونا بھی نہیں ہے آج طالبؔ
تڑپ غم نیند آنسو کیا بچھائیں