کس طرح اس کو بلاؤں خانۂ برباد میں
دل تأثر چاہتا ہے بے صدا فریاد میں
تیرگیٔ خوش گماں ہے جی جہاں لگنے لگے
شمع وحشت اک جلاؤں اس جہان شاد میں
جانتی ہوں یہ حکایت فصل بربادی کی ہے
پر متاع دل یہی ہے سینۂ ناشاد میں
وہ مثال خواب رنگیں اب کہاں موجود ہے
سو رہی ہوں میں ابھی تک خواب گاہ یاد میں
رشتۂ مبہم کو پھر سے جوڑتی ہے سوچ اک
دل اسی کو ڈھونڈھتا ہے ایک خواب آباد میں
خوش نگاہی اس حریف جاں کی یوں اچھی لگے
میں تڑپنا بھی نہ چاہوں پنجۂ صیاد میں
اس غم وحشت زدہ کا چارہ جو کوئی نہیں
امتحان ضبط ہے اک اس خراب آباد میں
ہر حصار خوش نما کو توڑتی جاتی ہوں میں
ایک خوئے دشت گردی ہے مری بنیاد میں
غزل
کس طرح اس کو بلاؤں خانۂ برباد میں
تنویر انجم