EN हिंदी
کس شخص کی تلاش میں سر پھوڑتی رہی | شیح شیری
kis shaKHs ki talash mein sar phoDti rahi

غزل

کس شخص کی تلاش میں سر پھوڑتی رہی

سرمد صہبائی

;

کس شخص کی تلاش میں سر پھوڑتی رہی
سنسان جنگلوں میں ہوا چیختی رہی

ماتھے پہ دھول ہاتھ میں کانٹے لیے حیات
صحرا سے خوشبوؤں کا پتہ پوچھتی رہی

دل بجھ گیا تو رات کی صورت تھی زندگی
جب تک یہ اک چراغ رہا روشنی رہی

میں آج بھی نہ اس سے کوئی بات کر سکا
لفظوں کے پتھروں میں تمنا دبی رہی

سنسان راستوں پہ بھٹکتی تھی چاندنی
شب بھر نہ جانے کس کے لیے جاگتی رہی

وہ پیڑ جو ہرا تھا بہاروں کے بعد بھی
حیرت سے اس کو زرد ہوا دیکھتی رہی

سورج نہ کوئی میری گلی میں اتر سکا
شب بھر مرے مکان کی کھڑکی کھلی رہی