کس شخص کی تلاش میں سر پھوڑتی رہی
سنسان جنگلوں میں ہوا چیختی رہی
ماتھے پہ دھول ہاتھ میں کانٹے لیے حیات
صحرا سے خوشبوؤں کا پتہ پوچھتی رہی
دل بجھ گیا تو رات کی صورت تھی زندگی
جب تک یہ اک چراغ رہا روشنی رہی
میں آج بھی نہ اس سے کوئی بات کر سکا
لفظوں کے پتھروں میں تمنا دبی رہی
سنسان راستوں پہ بھٹکتی تھی چاندنی
شب بھر نہ جانے کس کے لیے جاگتی رہی
وہ پیڑ جو ہرا تھا بہاروں کے بعد بھی
حیرت سے اس کو زرد ہوا دیکھتی رہی
سورج نہ کوئی میری گلی میں اتر سکا
شب بھر مرے مکان کی کھڑکی کھلی رہی

غزل
کس شخص کی تلاش میں سر پھوڑتی رہی
سرمد صہبائی